اسامہ حمدان نے تہران میں منعقدہ ذرائع ابلاغ کی چوبیسویں بین الاقوامی نمائش کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم میں مغرب کے ہاتھ بھی خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا غزہ میں ایک انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہی ہے لیکن امریکہ اور بعض یورپی ممالک اس سے منہ پھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ ان سب مظالم کے باوجود فلسطینی قوم ڈٹی ہوئی ہے اور اپنے استحکام کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں نے صیہونی دشمن کی بے بسی کا پردہ فاش کردیا ہے۔
انہوں نے استقامت کو فلسطینی عوام اور مسلم اور عرب امہ کے اتحاد کا محور قراردیا۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ جنگ بندی کے لئے جارحیت کے خاتمے، صیہونی فوجیوں کی پسپائی، امدادی سامان کی بغیر رکاوٹ ترسیل، غزہ کی تعمیر نو اور صیہونی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی، فلسطین کے استقامتی گروہوں کا مطالبہ ہے جس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔
انہوں نے اسرائیل کو جنگ بندی کے مذاکرات میں شکست کا واحد ذمہ دار قراردیتے ہوئے کہا کہ استقامت نے اپنے مطالبات پیش کئے، تل ابیب نے اس کا جواب دیا اور پھر اپنے ہی جواب سے پچھتا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ان کی کوشش ہے کہ سیاسی کھیل، کھیل کر فلسطینی استقامت کے مطالبات سے دامن جھاڑ لیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر صیہونی حکومت نے رفح پر زمینی جارحیت کرنے کی کوشش کی تو انہیں استقامتی محاذ کے منہ توڑ جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسامہ حمدان نے اسماعیل ہنیہ کے دورہ مصر کے بارے میں بھی بتایا کہ فلسطینی استقامت نے اپنی ماضی کی تجاویز کی بنیاد پر، اپنے مطالبات اور تجاویز ثالثوں کو منتقل کردی ہیں اور اپنے اس موقف پر باقی ہیں۔
انہوں نے ان دنوں بعض فریقوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے کچھ راہ حلوں کو صیہونی حکومت کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حق سے ذرہ برابر پیچھے ہٹا نہیں جائے گا۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ فلسطین کے بحران کی تاریخ طوفان الاقصی اور سات اکتوبر سے نہیں بلکہ سن 1948 اور اس سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے اور جب تک اپنا حق واپس نہیں لیتے تب تک جاں فشانی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ طوفان الاقصی ظلم اور ناجائز قبضے کے مقابلے اور غاصبوں سے پیش آنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلی کا باعث بنا ہے اور اب پورے فلسطین کی مکمل آزادی قریب نظر آرہی ہے۔
آپ کا تبصرہ